سندھ میں تشنج سے ہونے والی اموات کی شرح میں اضافہ، رواں برس سے اب تک 44 بچے انتقال کرگئے

news-details

کراچی: (منگل: 20 دسمبر2022ء) 2022 کے دوران ندھ میں تشنج سے نومولود اور بڑے بچوں کی اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے. 2022 کے دوران اب تک سندھ میں تشنج سے 44 بچے انتقال کرگئے ہیں۔ ای پی آئی کے مطابق ایک سال کے دوران تشنج سے ایک ماہ سے کم عمر 99 بچے متاثر ہوئے جن میں سے 28 بچے جانبر نہ ہوسکے۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اب تک قومی ادارہ صحت برائے اطفال میں ٹیٹنس (تشنج) کا شکار 75 بچے لائے گئے، جن میں سے 2 سے 7 سال کی عمر کے 38 جب کہ 7 سے 13 سال کی عمر کے 36 بچے شامل تھے۔ جن میں سے 16 بچے انتقال کرگئے۔ بچوں کی بیماریوں کے ماہرین نے تشنج سے اموات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ تشنج سے اموات کی بڑی وجہ ویکسینیشن کا نہ ہونا ہے۔
بچوں کی بیماریوں کے ماہر اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جمال رضا نے سماء کو بتایا کہ ہمارے ہاں روٹین ایمیونائزیشن کی شرح بہت کم ہے، اس کی ایک وجہ تو پچھلے کچھ عرصے میں پولیو پر زیادہ توجہ رہی ہے، اس میں کچھ دوسرے عوامل بھی شامل ہیں جیسا کہ سال 2020 میں کرونا وائرس کی وجہ سے بھی روٹین ایمیونائزیشن کی شرح بہت کم رہی ہے۔ ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا تھا کہ روٹین ایمیونائزیشن میں کمی کی وجہ سے خسرہ، کالی کھانسی، ٹی بی، خناق اور تشنج کے کیسز ہم پھر سے دیکھ رہے ہیں۔ خناق کے کیسز بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایمیونائزیشن کی شرح میں کمی کی وجہ سے ٹیٹنس کی شرح اچھی خاصی بڑھ گئی ہے، این آئی سی ایچ کے آئی سی یو میں ہم ہر ماہ تین سے پانچ بڑے بچے دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا تھا کہ یہ وہ بچے ہیں جن کی روٹین ایمیونائزیشن نہیں ہوئی ہے ظاہر ہے اب 10 سے 12 سال کی عمر میں جب یہ بچے کھیل کود کرتے ہوئے گر کر زخمی ہوتے ہیں یا انہیں چوٹ لگتی ہے تو ٹیٹنس کے جراثیم اندر چلے جاتے ہیں تو اس سے تشنج کی خطرناک بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات بچہ پندرہ پندرہ دن وینٹی لیٹر پر رہتا ہے اور بعض اوقات انتقال بھی کرجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بچوں کی روٹین ایمیونائزیشن ہوچکی ہے تو بھی گر کر زخمی ہونے جا چوٹ لگنے کی صورت میں زخم کو اچھی طرح صاف کرکے ٹیٹنس کا بوسٹر ضرور لگوائیں، انہوں نے محکمہ صحت سندھ سے اپیل کی کہ ڈیڑھ کا بوسٹر ایمیونائزیشن میں شامل نہیں ہے شامل کیا جائے۔
ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا تھا کہ نیونیٹل ٹیٹنس بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہےاس کے لیے ماں کی ویکسینیشن ضرروری ہے۔ماں کو پہلی مرتبہ حمل کے دوران دو ڈوزز لگائی جاتی ہیں جس کے بعد ہر سال یا ہر پریگنینسی پر بوسٹر لگے گا تاکہ پانچ ڈوزز کا کورس مکمل ہوجائے، ٹیٹنس ٹاکسائیڈ کے ڈوز ماں کو لگے ہوئے ہیں تو یہ واحد ویکسین ہے جس کی 100 فیصد پروٹیکشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں جو گھروں میں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے اور پیدائش کے بعد جو املائیکل کوڈ یا ناڑ کو اگر جراثیم والی قینچی یا بلیڈ سے کاٹا گیا ہے تو اس کے نتیجے میں نیونیٹل ٹیٹنس سیپسیس ہوتا ہے اور ناڑکاٹنے کے بعد اسے گندے کپڑے یا رسی سے باندھ دیا جاتا ہے جس سے جراثیم جسم میں داخل ہوجاتے ہیں یا پھر ناڑ کے اوپر سرمہ وغیرہ لگایا جاتا ہے۔
ہمیشہ ناڑ کو اسٹرلائز کئے گئے آلات سے کاٹنا چاہیے اور ناڑ پر کلورائیذوڈین کا سلوشن لگانا چاہیے جو اسے نیونیٹل املائیکل سیپسیس سے محفوظ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا تھا کہ سندھ میں ویکسینیشن کی شرح 65 فیصد ہے، ہمارے ہاں روٹین امیونائزیشن کی شرح بہت کم ہے اور کم سے کم 90 فیصد ہونی چاہیے۔