حیدرآباد (پ ر) سندھ آبادگار بورڈ نے رواں سال کپاس کی پیداوار دوگنا ہونے اور چاول کی برآمدات میں اضافہ ہونے سے قومی خزانے میں 3 سے 5 ارب ڈالر کے اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے تاہم دھان اور پھٹی کی قيمتوں میں کمی، پياز میں پیدا ہونے والی بیماریاں، پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ اور کھادوں کی بلیک مارکیٹنگ سے کسانوں اور زرعی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچنے کی نشاندھی بھی کردی ہے ۔ اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اہم اجلاس مرکزی صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ڈاکٹر ذوالفقار یوسفانی، ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، سید ندیم شاہ، امیر بخش مہر، محمد ملوک نظامانی، اعظم رند، اسلم مری، عمران بزدار، طاھا میمن، ڈاکٹر علی رضا میرجت، مشتاق نظامانی، غلام سرور درس، مراد علی شاھ بُکيرائی، طاھا عباسی اور مختلف اضلاع کے کاشتکاروں اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں زراعت اور کاشتکاروں سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں زرعی شعبہ معیشت کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ موسمیاتی اثرات اور ادارہ جاتی تعاون کی کمی کے باوجود اس سال کپاس کی پیداوار دوگنی ہونے اور چاول کی برآمدات 500 ملین ڈالر سے ايک بلین ڈالرتک ہونے سے قومی خزانے میں 3 سے 5 بلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔
سندھ آبادگار بورڈ نے کہا کہ کھاد، تیل اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ سے زرعی شعبے کو کچھ خطرات لاحق ہیں، جس کے نتیجے میں زرعی شعبے اور زرعی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس میں سب سے اہم مسئلہ یوریا کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کا ہے جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کھاد ہے جس کی سالانہ پیداوار ساڑھے چھ ملین ٹن ہے۔ حالیہ برسوں میں یوریا کی قیمت 1650 روپے سے بڑھ کر 3400 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے کسانوں کو حکومت کی طرف سے کھاد نہ ملنا معمول بن گیا ہے۔ اس وقت یہ کھاد بليک پر 4000 سے 4200 روپے کی قیمت میں دستیاب ہے۔ اس بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے کسانوں سے مجموعی طور پر 50 سے 70 ارب روپے بٹورے جا رہے ہیں۔ یوریا کھاد مقامی طور پر تیار ہونے کے باوجود اس کی بلیک مارکیٹنگ کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ این پی اور کیلشیم امونیم نائٹریٹ بھی بلیک میں فروخت ہو رہے ہیں۔ سندھ آبادگار بورڈ نے کہا کہ سندھ آبادگار بورڈ نے کھاد کا معاملہ نگران وزیراعلیٰ اور دیگر متعلقہ فورمز پر اٹھایا ہے لیکن ابھی تک کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور نہ ہی کسانوں کو مقررہ وقت پر کھاد مل رہی ہے۔
سندھ آبادگار بورڈ نے کہا کہ ایک طرف زرعی مصنوعات کی قیمتیں دگنی کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی کی جا رہی ہے جس سے کسانوں کو دوہرا نقصان ہو رہا ہے۔ پھٹی کی فی من قیمت 9000 روپے سے کم کر کے 6000 اور 5000 روپے کر دی گئی ہے سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق اس کی کم از کم قیمت 8500 روپے ہے۔ اس طرح دھان کی قيمت میں بھی بڑے پیمانے پر کمی کي گئی ہے۔ دھان کی قیمت 4200 روپے سے کم کر کے 2800 روپے کے قریب کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں پر دھان اور پھٹی ميں نمی کا جواز بناکرغیر قانونی کٹوتی الگ سے کی جاتی ہے ۔
سندھ آبادگار بورڈ نے مزید کہا ہے کہ بیماری کے باعث پيازکی پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ پہلے پاکستان سے اکتوبر سے پياز برآمد کی جاتی تھی، لیکن اب پیداوار کے لیے موزوں موسم ہونے کے باوجود پاکستان کو اسی وقت ميں پياز درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس سال ہزاروں ایکڑ پر کھڑی پياز کی فصل نامعلوم بیماری کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہے۔ سندھ آبادگار بورڈ نے مختلف متعلقہ سرکاری و نجی اداروں کو اس معاملے کی نشاندہی کی لیکن اس کے باوجود بیماری کی تشخيص نہ ہوسکی جس کی وجہ سے تاحال کوئی تدارک نہیں ہوسکا۔ کاشکار خود اس معاملے میں لاکھوں روپے خرچ کر چکے ہیں لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث پياز کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔
سندھ آبادگار بورڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مذکورہ اہم مسائل کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کو فعال کیا جائے تاکہ زراعت اور کسانوں کو بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ گورننس کو بہتر بنا کر کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں، دھان اور پھٹی کی غیر قانونی کٹوتی بند کی جائے۔ مڈل مین کے کردار کو شفاف رکھنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں جو کہ قيمتوں کی کمی کی ايک بڑی وجہ ہے۔ سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں گندم کی کاشت شروع ہوگئی ہے، سندھ آبادگار بورڈ نے رواں سال کی گندم کی پیداواری لاگت کا تفصیلی تخمینہ بھی سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کو پیش کردیا ہے، گندم کی فی من قیمت 4912 روپے ہونی چاہیے۔ سندھ آبادگار بورڈ کے اجلاس میں ٹریڈ ڈویلپمنٹ آف پاکستان کے براہ راست کسانوں سے رابطے کے اقدامات کو سراہا گیا۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہارٹی کلچر کی برآمدات کے وسیع مواقع سے اس وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب بنیادی پروڈیوسرز کاشتکار بھی برآمدات کے فروغ کی سرگرمیوں میں شامل ہوں۔ کسانوں کو بین الاقوامی منڈیوں کی برآمدات کی ضروریات اور معیارات کو سمجھنے اور اس کے مطابق مہارت پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔