بھارت میں مذہبی منافرت، انسانی حقوق کی پامالی

news-details

(بھارت میں مذہبی منافرت، انسانی حقوق کی پامالی : رافعیہ قاسم 
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اور مذہبی آزادی میں رکاوٹیں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ مذہبی انتہا پسندی اور جبری سلوک ابتداء سے یعنی )قیام پاکستان اور ہندو اور مسلمان کی علیحدہ ریاستوں کے دور( سے چال آرہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں رہ جانے واال مسلمانوں کو جس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن نریندر مودی کی حکومت نے انتہا پسندی کی اس آگ کو مزید بھڑکایا ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے جس میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ اور ملک میں ہر دوسرے دن ہندوؤں کے عالوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور ظلم و بربریت کی مثالیں قائم ہوتیں ہیں۔ بھارت میں ٹوپی پہننے والے سے لے کر حجاب کرنے والی عورت تک مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے۔

 

انسانی حقوق سے مراد ایسے حقوق جن پر تمام انسانیت کو یکساں استحقاق حاصل ہو۔ اور یہ حقوق امیر، غریب، کالے، گورے ہندو، مسلمان، عیسائی غرض کہ ہر مذہب،طبقے، فرقے اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے برابر ہو۔ بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی پامالی روزمرہ کی سرگرمی بن چکی ہے۔ بلکہ صرف مذہبی حقوق ہی نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کے ساتھ غیر اخالقی رویہ ان کو تعلیم سے محروم کرنا ہے۔ جن سے ان کی تعلیمی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمان لڑکیوں کو حجاب کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 15 فروری کو انڈیا کی ریاست کرناٹک میں مسلمان خواتین پر تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی لگائی گئی۔ مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے کا معاملہ ہائی کورٹ میں بھی جا چکا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم میں طالب علموں کے کالس رومز میں حجاب یا زعفرانی شال )جسے ہندوتوا کی عالمت سمجھا جاتا ہے( لے جانے پر پابندی لگائی تھی۔ اس واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی گردش کرتے نظر آئی جس میں دیکھا گیا ہے کہ زعفرانی شال پہنے طلبہ کے ایک گروہ نے مسکان نامی حجاب پوش لڑکی کو حراسہ کیا جس پر اس نے ہللا اکبر ہللا اکبر کے نعرے بلند کئے۔

 

ہندوؤں کے ایک مذہبی تہوار نو راتری کے دنوں ان کا ایک طبقہ گوشت کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے حالل گوشت کی فروخت پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس مطالبے سے متعلق دارالحکومت دہلی میں تین میونسپل کورپوریشنز میں سے دو نے حالل گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کی ہے۔ بات صرف یہی پر ختم نہیں ہوتی سفاک بھارتی حکومت کی دائیں بازوں کی تنظیموں نے دھمکی دی ہے کہ اگر الؤڈ اسپیکرز سے آذان دینا بند نہیں کیا گیا تو وہ مسجدوں کے سامنے اپنی مذہبی کتاب ہنومان چالیسہ کا پاٹ کریں گے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ا یک ویڈیو بھی گردش ہوئ جس میں دیکھا گیا کہ راجستھان کے کرولی قصبے میں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے ایک بائیک ریلی نکالی اور ایک مسجد پر چڑھ کر زعفراری پرچم لہرایا اور مسجد کی چھت پر ڈانس بھی کیا۔ مقامی مسلمانوں نے اس شدت پسندانہ رویے کی مخالفت کی جس پر دونوں جانب سے پتھرا ہوا جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد وہاں کی انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر دی۔

بھارت کو سیکولر ریاست کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ جمہوریت کے بڑے دعویدار اور بڑی فوجی طاقت رکھنے کے باوجود بھی انسانی حقوق کی پامالی میں بھی اولین حیثیت رکھتے ہیں۔ عالمی اداروں کی امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہندو انتہا پسندوں کے مظالم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت کو اقلیتوں سمیت بہت سے طبقات کے لیے خطرناک ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ بھارتی حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی آر ایس ایس، وی ایچ پی )وشو ہندو پریشد( بی جے پی,)بھارتیہ جنتا پارٹی( اور ڈی جے ایس )دھرم جاگرن سمیتی( جیسے دیگر انتہا پسند تنظیموں کی کوشش ہے کہ مسلمان، عیسائی، بدھ مت، سکھوں کو تعلیم، تجارت اور روزگار غرض کے ہر شعبے میں انہیں پسماندہ رکھا جائے تاکہ یہ ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔ دراصل ان مذہبی انتہا پسندوں کا یہ ماننا ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کی ریاست ہے اور یہاں صرف ہندو دھرم سے منسلک لوگوں کو رہنے کا حق درکار ہے۔ ایسے حاالت کو بھارتی میڈیا مذہبی فسادات کے طور پر پیش کرتا ہے. جبکہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے اور بھارتی میڈیا اپنی حکومت کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال رہا ہے اور اس گھنونی سازش میں حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔ ماہ اگست کے دوران بھی پورے بھارت میں مسلمانوں کو مارنے پیٹنے کے متعدد واقعات ہوتے رہے۔ انہیں قتل کیا گیا سرعام ذلیل کیا گیا ہے، ہراساں کیا گیا، جے شری رام اور وندے ماترم کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔

بھارت مسلمانوں پر مذہبی تہوار آزادی کے ساتھ منانے میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا مقدس مذہبی تہوار عید االضحی منانا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ ہر سال کی طرح گزشتہ سال 2021 اور 2022 کے ساتھ ساتھ رواں سال 2023 میں بھی نماز عید کی اجتماعات پر پابندی عائد ہوئی۔ بھارت کے اکثر ریاستوں میں نماز عید کے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی اور گائے کی قربانی سے بھی روکا گیا۔ جس کی وجہ سے لوگ عید کی نماز گھر پر ادا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے عید االضحی کے موقع پر کھلے میدانوں میں جانور ذبح کرنے پر پابندی لگائی تھی جس سے الکھوں بھارتی مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے یہ عمل ہر سال ہی ہوتا ہے اور ہر سال مسلمانوں کو ان کا مذہبی تہوار آزادی کے ساتھ منانے نہیں دیا جاتا۔

ان مظالم پر قابو پانے کے لیے مسلمان ریاستیں بھرپور کوششوں میں ہیں لیکن صرف مزمت کرنے سے معامالت کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی حکومت بھی اس پر کابو پانے میں ناکام ہے کیونکہ ہندو اور اقلیتوں میں فرق اور مسلمانوں پر مظالم کے گھنونے کھیل میں بھارت سرکار خود شامل ہے۔ بھارت کے مذہبی انتہا پسندوں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے پیش نظر امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو اس حوالے سے بلیک لسٹ کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے بھی اس حوالے سے سفارش کر چکے ہیں مگر عالمی برادری اور بین االقوامی ادارے اس ضمن میں بھارت سے متعلق چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں۔

سیکولر اور عوامی حکومت کے دعویدار ریاست کو چاہیے تھا کہ وہ تمام مذاہب اور کمیونٹیز کو ایک نظر سے دیکھتے اور انہیں تمام بنیادی انسانی حقوق یکساں طور پر فراہم کرتی لیکن بھارتی ریاست صرف انتہا پسند تنظیموں کی رہنمائی کرتی ہے اور انہیں کاندھا فراہم کرتی ہے جس کی بنیاد پر وہ ملک میں ظلم و بربریت جاری رکھے ہوئے ہیں اور اقلیتوں کا جینا مشکل بنایا ہوا ہے۔ ہندو ؤں کی مسلمانوں سے یہ دشمنی پرانی ہے جسے وہ خود ختم کرنا نہیں چاہتے اور وہ اسی کوشش میں ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو اپنے ملک سے بے دخل کردیں۔